جمعہ، 7 جنوری، 2022

خیانت اور خیانت کاروں کا یہ سلسلہ آخر کب تک ؟

خیانت اور خیانت کاروں کا یہ سلسلہ آخر کب تک ؟


تاریخ کے اوراق اس بات کی گواہ ہے کہ تحریکوں اور غلام قوموں کے درمیان ہمیشہ سے غدار پیدا ہوئے ہے۔ 


شروعات کرتے ہے ہم اسلامی تاریخ سے اسلامی تاریخ میں سب سے پہلے جنگ احد کے میدان میں ہمیں اس کا زکر ملتا ہے کہ راستے سے عبداللہ ابن صابر اپنا لشکر الگ کردیتی ہے اور میدان جنگ میں مسلمانوں کا فتح دیکھ کر کچھ لوگ اپنے ذاتی خواہشات  کے تحت مقرر جگہ سے ہٹ جاتے ہے تاکہ مال غنیمت سمیٹ سیکھے ۔ 


اسی وجہ سے مسلمانوں کو اس جنگ میں شکست ہوتی ہیں۔  دوسری سب سے بڑی خیانت وہ امت کی جانب سے جنگ صفین اور پھر کربلاء کے میدان میں  ہمیں نظر آتا ہے۔  


مسلمان ممالک اور مسلمانوں کی زاول تو اس وقت سے شروع ہوتا ہے جب اہلیبت رسول (ص) سے امت خیانت کرنا شروع کردیتی ہے۔ 


برصغیر میں انگریز کبھی بھی حکومت کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتے تھے جب تک کہ مقامی  اقوام کے اندرسے کوئی غداری نہیں کرتے۔ ۔


میسور کا بادشاہ حیدر علی کا بیٹا  ٹپو سلطان اور بنگال کا بادشاہ نواب سراج الدولہ  کے اپنے وزیروں میں سے میر صادق اور میر جعفر جیسے غدار اور قوم فروش اگر پیدا نہیں ہوتے تو انگریز کبھی بھی حکومت قائم نہیں کرسکتی۔ 


ہزارہ قوم کی تاریخ میں بھی ایسے بہت سارے افراد کی ناموں کا ہمیں ذکر ملتا ہے 


جنہوں نے چند اعلی عہدوں اور چند روپیوں کی خاطر اپنے قوم سے غداری کا طوق اپنے گلے میں سجائے۔ 


گزشتہ بیس سالہ قتل عام ہمارے سامنے اس کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ 

کہ جہاں لوگ نان شعبنہ کے محتاج تھے وہی اس قتل عام کے دوران کچھ  لوگ ارب پتی بن گئے۔ 


دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمارے گھروں کی حالت زار یہ ہے کہ والدین ہی تک گھروں سے میر جعفر و میر صادق تربیت کرتے ہوئے معاشرے کو افراد دے رہے ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں بچپن میں ہی والدین اپنے لوگوں کو خود عرضیاں سیکھائیں وہاں بلا کیسے ٹیپو سلطان ، نیلسن مینڈیلا . سقراط ، عبدالستار ایدھی جیسے شخصیات پیدا ہونگے۔ 


اسے معاشرے اور قوم کے ساتھ کیا کچھ نہ ہو جو ہر گھر سے ایک میر جعفر و میر صادق تربیت دے رہے ہیں۔ 


اب تو کئ نسلوں کی مسلسل غلامی کرنے کی وجہ سے آپ کو ہزارہ معاشرے میں غلامی وارثت میں ملتی نظر آئے گی۔۔ 

اب تو یوں ایسا لگتا ہے کہ خدا نخواستہ ہمارے جسم کے شریانہ میں موجود خون میں قوم سے خیانت اور غداری شامل ہے ۔  

کہتے ہے کہ جہاں لوگوں کی خمیر میں غداری شامل ہو وہاں آزادی اور استقلال کی باتیں کرنا خود کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔۔۔

جان محمد انصاری


بدھ، 21 جولائی، 2021

جب تک ہمیں غلامی کا احساس نہیں ہوگا تب تک ہم غلامی سے نکلنے کیلئے جدوجہد نہیں کرینگے۔

 جب تک ہمیں غلامی کا احساس نہیں ہوگا۔

تب تک ہم غلامی سے نکلنے کیلئے جدوجہد نہیں کرینگے ۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ سب سے پہلےدن کا آغاز جاپان میں ہوتا ہے۔ صنعتی ترقی کے میدان میںبھی جاپان کو اُبھرتے سورج کی سی حیثیت حاصل ہے۔ جاپان صنعتی لحاظ سے ایک انتہائی ترقی یافتہ ملک ہے، جہاں بے شمار بڑے کارخانے قائم ہیں۔ ان کارخانوں میں لاکھوں افراد کام کر رہے ہیں۔ یہ کارخانے زیادہ تر خود کار آلات سے لیس ہیں، جن میں موٹر سائیکلیں، بڑے بڑے بحری جہاز، بجلی پیدا کرنے والے جنریٹرز، کمپیوٹر، لوہے اور فولاد کی مشینیں، کیمیائی سامان اور اعلیٰ معیار کی اشیاء صرف مثلاً گھڑیاں، ٹیلی ویژن سیٹ، الیکٹرونک کیلکولیٹرز، موبائل فون، ساکت کیمرے اور ویڈیو کیمرے تیار کیے جاتے ہیں۔ جاپان میں موٹر سازی کی صنعت نے انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کی ہے۔ 1985ء میں ایک کروڑ بائیس لاکھ ستر ہزار گاڑیاں سالانہ تیار کرکے، جاپان موٹر سازی کی صنعت میں پہلے نمبر پر آگیاتھا۔ موٹر سائیکلوں کی تیاری میں بھی جاپان سرفہرست ہے۔ 1959ء سے جاپان بحری جہاز تیار کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ 1981ء میں جاپان نے دنیا کا سب سے بڑا بحری جہاز ’’سی وائز جائنٹ‘‘ تیار کیا جس کا وزن 564,763 ٹن تھا۔
گھریلو استعمال کی اشیا مثلاً ریفریجریٹرز، کپڑے دھونے کی مشینیں، ویکیوم کلینرز، بجلی کے پنکھے اور ایئر کنڈیشنرز کی پیداوار میں جاپان نے عظیم ترقی کی ہے۔ کیمیائی صنعت بھی جاپان کی ایک اہم صنعت بن چکی ہے اور جدید صنعت میں استعمال ہونے والے کیمیائی خام مال کی تیاری میں جاپان کا شمار دنیا کے صفِ اوّل کے ممالک میں ہوتا ہے۔
جاپان کی معیشت میں گزشتہ دہائی میں جو تیز رفتار ترقی ہوئی، اس میں اگرچہ اب کمی آگئی ہے اور آئندہ بھی ترقی کی رفتار سست رہے گی لیکن یہ ترقی مستحکم اور مسلسل جاری رہے گی۔ جاپان میں ایسی اشیا تیار کرنے پر زور دیا جاتا ہے جن کی پیداوار میں زیادہ توانائی اور قدرتی وسائل کی ضرورت نہ پڑے بلکہ جدید ترین ٹیکنالوجی اور مہارت کا استعمال ہو۔ جاپانی مصنوعات کی دنیا بھر میں مقبولیت اور ان کی طلب کا اصل کریڈٹ جاپانی کارکنوں کو دیا جاتا ہے، جن کی محنت، شوق اور لگن کی وجہ سے دنیا بھر کے لوگ جاپانی مصنوعات پر اعتماد کرتے ہیں۔
دوسری جنگ ِ عظیم تک جاپان کایہ حال تھا کہ ’میڈان جاپان‘ کا لفظ جس سامان پر لکھا ہوا ہو، اس کے متعلق پیشگی طور پر سمجھ لیا جاتا تھا کہ یہ سستا اور ناقابل اعتماد ہوگا۔ جاپانی سامان کی تصویر اتنی گھٹیا تھی کہ مغربی ممالک کے تاجر جاپانی ساخت کا سامان اپنی دکان پر رکھنا ہتک سمجھتے تھے۔ پھر صرف چالیس سال کے اندر جاپان نے کس طرح ایسی انقلابی ترقی حاصل کی؟ ایک امریکی اسکالر ولیم اویو جی کے الفاظ ہیں کہ ’اس کا راز اپنے کارکنوں کے اندر ترغیب پیدا کرکے بہتر سے بہتر معیار کی اشیا تیار کرنے پر اُبھارنا ہے‘۔ 1949ء میں جاپان میں ایک صنعتی سیمینار کرایا گیا، جس میں امریکا کے ڈائریکٹر ایروڈ ڈلیمنگ کو خصوصی دعوت نامہ بھیج کر بلوایا گیا، جنہوں نے اپنے لیکچر میں اعلیٰ صنعتی پیداوار کا ایک نیا نظریہ پیش کیا۔
یہ ’کوالٹی کنٹرول‘ کا نظریہ تھا۔ جاپانیوں نے امریکی پروفیسر کی بات کو پوری طرح اپنا لیا اور اپنے صنعتی نظام کو کوالٹی کنٹرول کے رُخ پر چلانا شروع کیا۔ جلد ہی ایسا ہوا کہ جاپانیوں کے کارخانے بے نقص سامان تیار کرنے لگے، دنیا بھر میں جاپانی مصنوعات پر بھروسہ کیا جانے لگا۔ امریکا سے کوالٹی کنٹرول کا مذکورہ نسخہ حاصل کرکے جاپانی، امریکا کی منڈی پر چھا گئے۔ امریکا کا اپالو دوم جب چاند پر گیا تو اس کے اندر رکھنے کے لیے بہت چھوٹے ٹیپ ریکارڈر کے ضرورت تھی۔ اتنا چھوٹا اور بالکل صحیح کام کرنے والا ریکارڈر صرف جاپان ہی فراہم کرسکتا تھا۔ اپالو دوم کے ساتھ جاپانی ساخت کا ریکارڈر چاند پر روانہ کیا گیا۔
جاپان میں ایک ایسا کلچر رائج ہے، جس میں کارکنوں کو اس بات کا ہر وقت احساس رہتا ہے کہ ان کے ہاتھوں تیار شدہ مال سمندر پار ممالک کو برآمد کیا جائے گا اور اگر اس کا معیار خراب ہوا تو جاپانی اشیا کی اہمیت کم ہوجائے گی، نئے آرڈر ملنے بند ہوجائیں گے اور اس کے خراب اثرات جاپانی معیشت کو تباہ کردیں گے۔ جاپانی معیشت کا سارا دارومدار برآمدات پرہے۔ہر جاپانی کارکن کے لیے کم از کم دو گھنٹے اوور ٹائم کرنا لازمی تصور کیا جاتا ہے۔ تیز کام کرنے کے ساتھ ساتھ جاپانیوں کے کام کرنے کی استعداد بھی دیگر قوموں کےمقابلے میں زیادہ ہے۔ امریکی جنرل موٹرز میں اگر سالانہ فی کارکن گیارہ گاڑیاں تیار کی جاتی ہیں تو جاپان کی مزدا موٹرز کا اوسط 33 گاڑیاں فی ورکر سالانہ ہے۔
میڈاِن جاپان کا دوسرا مطلب ’اعلیٰ کوالٹی، پائیداری اور سب سے بہتر‘ لیا جاتا ہے۔ دنیا کے کسی بھی حصے میں چلے جائیں، کوئی گھر ایسا نہیں ملے گا جہاں ’میڈاِن جاپان‘ والی کوئی شے موجود نہ ہو۔ اتنی بڑی کامیابی صرف محنت اور دیانت داری کے بل پر ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔
جاپان کی اس ترقی کا رازاس حقیقت کا اعتراف ہےکہ اس نے دوسری جنگِ عظیم میں شکست کے بعد نا ہی جھوٹی اَکڑ دِکھائی اور نا ہی بے فائدہ ماتم میں اپنا وقت برباد کیا، بلکہ ازسر نو جدوجہد کی۔ اس نے اپنے دشمن کے خلاف الفاظ کی بے مقصد جنگ میں پڑنے سے اجتناب کیا اور اپنی ناکامی کا اعتراف کیا، اسی ناکامی سے ہی ان کو ترقی کی راہیں ملیں اور اس ناکامی ہی نےجاپانی قوم کو تعلیم و صنعت کے میدان میں کامیابی سے ہمکنار کیا۔
فطرت کی مشیت بھی بڑی چیز ہے لیکن
فطرت کبھی بے بس کا سہارا نہیں ہوتی۔
جان محمد انصاری

پیر، 27 اپریل، 2020

بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے لیکر احساس کفالتی پروگرام اور غربت!




25 جولائی 2018 کو موجودہ حکومت نے اقتدار میں آتے ہی بہت سے اقدامات کرنے کی اعلانات کیں،جن میں سرفہرست کرپشن کی بیخ کنی، احتساب ، فلاحی ریاست ، پچاس ہزار نوکریاں، پانچ لاکھ گھر اور پاکستان کو معاشی بحران سے نکال کر خوشحال پاکستان بنانے کا اعلان شامل تھا۔ ۔ کرپشن کی روک تھام اور معاشی اصلاحات سمت آج تک کسی بھی دوسرے وعدے پر عمل در امد نہ ہوسکا۔
بقول شاعر ؛-
وہ وعدہ ہی کیا وعدہ ۔
جو وفاء نہ ہو۔
عالمی ادارہ صحت کے ایک حالیہ سروے کے مطابق پاکستان کے سب سے پسماندہ صوبہ بلوچستان کے شعبہ صحت میں %90 بیت الخلاء، %70 پانی اور %50 بجلی سے محروم ہے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق بلوچستان جنوبی ایشیا کا سب سے غربت زدہ خطہ ہے۔
پاکستان کی کل آبادی کے %70 لوگ خط غربت کے لکیر کے نیچھے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ پاکستان کے اندر لوگوں کی غربت کم کرنے کیلئے مندرجہ ذیل ادارے زیرے سرپرستی حکومت پاکستان اپنا کام سر انجام دہے ہے۔
1. Banzir Income Support.
2. Pakistan Bait-ul-Mall Zakat.
3. Poverty Alleviation Fund.
4. Trust for Volountry Organization.
5. The Sun Network.
6. Centre for Social Entrepreneurship.
کپتان نے پاکستان میں غربت کم کرنے کیلئے اپنی کابینہ کے اراکین سے مشورہ کئے۔ چونکہ خان صاحب کی کابینہ میں شامل اکثر وزراء و مشیران کا تعلق سابقہ حکومت کرنے والے سیاسی جماعتوں سے ہے لہذا انہوں نے خان صاحب کو وہی مشہورے دئے جو اس سے پہلے حکومتیں سر انجام دے چکے تھے۔ یعنی مالی امداد دے کر غربت کو کم کیا جائے۔ پھر اس حکومت سے وہی غلطی سر زد ہوا جو 2008 میں پاکستان پیپلزپارٹی کے حکومت نے کی ۔ 2008 میں پی پی پی کے حکومت نے اعلان کہ ملک سے غربت ختم کرنے کےلئے فی خاندان ایک ہزار روپے ماہانہ غریب ترین خاندانوں کو دیا جائے گا۔ بجٹ 2009۔2008 میں اس مد میں 35 ارب روپے مختص کئے اور 35 لاکھ خاندان کو یہ رقم تقسیم کرنے کا پروگرام بنایا۔ اس سکیم کے تحت ایک نیا محکمہ بنایا گیا اور اس محکمے کو ایک وزیر بھی عنایت کردی گئی۔ اس پروگرام کے تحت 342 منتخب ایم۔این۔ایز اور 100 سینٹرز کو فی نمائیندہ 8000 فارم دئے گئے تا کہ وہ اپنے اپنے حلقہ انتخاب میں غریب ترین لوگوں کو یہ فارم دیں۔ ان کی تصدیق کرکے یہ فارم متعلقہ محکمہ کو واپس کریں تا کہ غریب خاندانوں کو فی خاندان ایک ہزار ماہانہ امداد شروع کی جاسکے۔ اس پروگرام کے لئے 6 کروڑ ڈالر کا قرض بھی حکومت نے حاصل کرلیا۔ یہ سب فارم سیاسی بنیادوں پر اپنے ووٹرز میں تقسیم کئے گئے۔ اس مرتبہ 27 مارچ 2017 میں عمران کی حکومت نے وہی غلطی دوبارہ دھراتے ہوئے احساس کفالتی پرگرام کا آغاز کردیا۔ جس کی مد میں سال 2019 کے بجٹ میں 80 بیلن روپے منظور کئے گئے۔ یہ فیصلہ اس وقت کیا گیا جب ملک انتہائی معاشی بحران کا شکار تھا۔ پاکستان میں لاکھوں کے حساب سے نوجوان بےروزگار بیٹھے ہوئے ہے۔ اگر حکومت توڈا بہت بھی سنجیدہ ہوتا تو مستقبل بنیادوں پر منصوبہ بندی کرتا تو اس سرمائے سے شہری اور ریہی حلقوں میں ٹیکس فری چھوٹی بڑی 100 کے قریب فیکڑیاں لگائی جاسکتی تھی، اور ان فیکٹریوں میں کوئی تقریبا ڈیڑھ لاکھ بے روزگار نوجوانوں کو ملازمت دی جاسکتی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ اسی سرمائے میں سے میڑک اور ایف اے پاس نوجوانوں کو ٹیکنیکل تعلیم دلواکر بے روزگاری کا چند سالوں میں حل نکالا جاسکتا تھا۔ بقول بندہ حقیر محنتی اور ہنرمند لوگ دنیا میں کبھی بھی بھوکے نہیں رہتے۔ اکیسویں صدی مشینوں کا دور ہے ، اس دور میں جس ملک کے پاس جینے ہنرمند لوگ ہوگئے وہ اتنے ہی ترقی یافتہ ہوسکتے ہے۔ جس کا واضح نمونہ ہمارے پاس بنگلادیش ہے جس نے بیران ممالک کام کرنے والے اپنے شہریوں کو وطن واپس بھولاکر ہنرمند بنا کر عالمی منڈی کے اندر داخل کے اور اب بنگلادیش ہم سے روز بروز آگے نکلتے جارہے ہیں۔
جو پاکستان کیلئے باعث شرمندگی ہے۔
اگر اس طرح کے عارضی پراجیکٹس سے ملک ترقی کرتا تو پہلے کرچکا ہوتا۔
پاکستان کے نااہل حکمرانوں کی ناقص پالیسوں کی وجہ سے یہ ملک آج تباہی کے دہانے پر پہچ چکا ہے۔
جان محمد انصاری.

ہفتہ، 25 اپریل، 2020

سوشل میڈیا اور احساس کمتری



ہمارےہاں نوجوان حضرات آج کل بڑے تیزی سے احساس کمتری میں مبتلا ہورہے ہیں۔ جس کا عملی مظاہرہ ہم معاشرے میں موجود نوجوانوں کے اخلاق و کردار سے دیکھ سکتے ہیں۔
کہ کس قدرہمارے نوجوان احساس کمتری میں مبتلاء ہے۔ ماہرین نفسیات کی ایک ریسرچ سے یہ ثابت ہوا ہے کہ جو نوجوان سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال کرتے ہے ۔ ان کا احساس کمتری میں مبتلاء ہونے کا زیادہ امکانات پایا جاتا ہیں۔ جس کے بعد وہ مکمل طور پر عملی زندگی میں ناکام ہوتے ہے ۔ کئی مرتبہ تو نوجوانوں کا خودکشی کے اطلاعات بھی ملے ہے۔ احساس کمتری دراصل ایک طرح کی نفسیاتی بیماری ہے جس کے بارے میں ہمیں علم ہونا ضروری ہے ۔ قارئین محترم
ماہر نفسیات ڈاکٹر صابر چوہدری کے
کے مطابق احساس کمتری ایک ایسی ذہنی کیفیت کا نام ہے جس میں انسان اپنا مقابلہ کسی سے کرنے کے بعد خود کو کم تر سمجھے۔
ماہر نفسیات ایڈلر کے مطابق احساس کمتری انسان کو بہتر بننے کی وجہ سے بنتا ہے مگر یہ بہتر بننے سے روکے تو یہ بیماری بن جاتا ہے۔
احساس کمتری کے شکار لوگوں کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ یہ لوگ تعریف کے معاملے میں یا تو بالکل بھی تعریف سننا پسند نہیں کرتے۔ کیونکہ دل میں سوچتے ہیں کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے ، یاپھر تعریف کے بھوکے رہتے ہیں کہ کاش کوئی ان کی تعریف کردے۔ سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال بھی نوجوانوں کو احساس کمتری یا پھر احساس برتری میں مبتلا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ ہم میں سے اکثریت نے لفظ احساس کمتری کئی مرتبہ سنے ہے لیکن بہت کم ہی احساس برتری کا لوگ ذکر کرتے ہے۔ یہ دونوں ہی ایک جیسے ذہنی کیفیات کا نام ہے۔ ہم صرف جسمانی طور پر بیمار یا پھر کمزور نہیں ہوتے بلکہ ہم میں سے بہت سارے نوجوانوں کو شاید معلوم ہی نہ ہو کہ ان کی زندگیوں میں جو مشکلات ہے وہ ان کی اپنی نفسیاتی بیماریوں کی وجہ سے ہے۔ اور اس بات سے علم بھی نہیں رکھتے ہوکہ جو وہ روزانہ پانچ پانچ گھنٹے سوشل میڈیا کے اوپر دوسروں کو دیکھتے ہے۔
اسی وجہ سے وہ نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہے۔ کچھ نوجوان ایسے بھی ہوتے ہے کہ سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال کرنے کی وجہ سے احساس کمتری میں نہیں بلکہ احساس برتری میں مبتلا ہو جاتے ہے۔ احساس برتری ایک طرح کا ذہنی کیفیت ہے کہ جس میں انسان خود کو دوسروں سے بہتر سجھتا ہے۔ مگر حقیقت میں وہ بہتر نہیں ہوتا۔
احساس برتری میں مبتلا لوگوں کی چند نشانیاں یوں ہے ۔ آپ دیکھے کئی سوشل میڈیا کے استعمال سے آپ کے اندر یہ علامات تو نہیں پائے جاتے۔
1۔ وہ اکثر تنقید کرتے رہتے ہے۔
2۔ لوگوں کا ہمیشہ مذاق آڑاتے ہیں۔
3۔ لوگوں میں عیب اور برائیاں تلاش کرتے ہیں۔
4۔ وہ دوسروں کی غلطیوں اور کمزوریوں کو اچھال کر خوشی محسوس کرتے ہیں۔
5۔ اپنے آپ کو کچھ زیادہ ہی خاص سمجھتے ہے۔انہیں اپنے اندر کوئی خامی نظر نہیں آتی۔ اس لیے یہ اپنی اصلاح کی بھی کوشش نہیں کرتے ۔
اب آپ دیکھے کہ سوشل میڈیا ایک ایسا پیلٹ فارم بن چکا ہے جہاں پر دنیا بھر کے لوگ موجود ہوتے ہے۔ لازمی بات ہے اس میں ہر طبقے کے لوگ پائے جاتے ہے۔
ہمارے ہاں اکثریت کے عقلیں ان کے آنکھوں میں ہی ہوتے ہے۔ بظاہر وہ سوشل میڈیا کے اندر اپنی زندگی کو دوسروں کی ذاتی زندگی ( یعنی ان اسکرین ) سے موازنہ کرتے ہیں ۔ جس کے بعد انہیں اپنی زندگیوں میں صرف نادیدگی محرومیوں کا احساس ہوتا ہے۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ احساس کمتری یا احساس برتری دونوں آپ کے عملی سماجی روابط کے ذندگی کو خراب کرسکتے ہے ۔
جان محمد انصاری ۔

منگل، 21 اپریل، 2020

ہزارہ قوم! قائداعظم سے لیکر عمران خان تک !!

اکیسویں صدی میں معاشی ترقی کے بغیر ترقی کا مفہوم ہی نامکمل ہیں۔
معاشیات کی اہمیت کا انداز اپنے انفرادی زندگی سے لیکر عالمی قوتوں کی کردار میں دیکھ سکتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر ہم اقتصادی طور پر ترقی یافتہ ہوجائے تو خود بخود ہماری ثقافتی پسماندگی کا مسلہ حل ہوجائے گا۔ کیونکہ زبان ،اقدار , اخلاقیات ،خوراک ، پوشاک ،موسیقی اور تربیت پر انسان اس وقت صحیح طور پر توجہ دے سکتا ہیں جب انسان اور سماج کے پاس وسائل سر پلس میں موجود ہو۔ یعنی زندگی کے بنیادی ضروریات سے بڑھ کر انسان کے پاس وسائل موجود ہوں۔ معاشرہ اور قوم بھی اس وقت ترقی کرسکتا ہے کہ جب وسائل ہمارے پاس سرپلس میں موجود ہوں یا پھر موجودہ انسانی اور مالیاتی محدود وسائل کا صحیح اور درست استعمال کرنے کے طور طریقے انسان کو آتے ہو۔ چنانچہ تمام حقیقتوں کے باوجود معاشی پسمنادگی ہماری ثقافتی و مذہبی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ہمیں اس بات کا علم ہونا چاہئے کہ معاشیات اور سیاسیات کا آپس میں لازم و ملزوم ہے۔ یہ دونوں ایک سکہ کے دو روخ ہے اور ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہیں ، فلسفہ کے بعد تمام علوم سیاست کے اندر ضم ہوتا ہے۔ ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہئے کہ سیاسی میدان میں کامیاب ہوئے بغیر ہم ترقی حاصل نہیں کرسکتے ہیں۔ یہاں سیاست کی مفہوم سے مراد صرف صوبائی یا قومی اسمبلی کی نشت کی جنگ تک محدود نہیں بلکہ نظریاتی نظام ، سماجی منصوبہ بندی، کارکاردگی، کردار و شعور اور لوگوں کی معیار زندگی بہتر بنانے کیلئے جدوجہد کو سیاست کہتے ہیں۔ اگر چند کے لفظ سیاست کا مفہوم کافی وسیع ہے۔
ہزارہ قوم کو شاید صوبائی اسمبلی سے زیادہ ایک نظام کی ضرورت ہے جو اس قوم کی مذہبی و قومی تعلیمات کا سرچشمہ سے انہیں سیرآب کرلئے۔
اس قوم کو جدید بنیادوں پر ترقی دینے کیلئے معاشرے کی از سر نو تشکیل کرئے جس میں اس کی معاشی منصوبہ بندی، نئے سیاسی نصاب اور تعلیمی نصاب میں تبدیلی لائے ۔۔ کیونکہ ماضی کے روایت اور اصولوں سے ہم تجربہ و فائدہ تو آٹھاسکتے ہے لیکن آئیندہ دور کے چلینجز کا مقابلہ کرنے کیلئے اس قوم کو باقاعدہ ایک نظام کی ضرورت ہے۔ دشمن باقاعدہ ایک نظام کے تحت اس قوم کے خلاف سازشیں کرتے ہے اور سازشوں کا صحیح ادراک اور اس کا جواب بھی ایک نظام ہی دے سکتا ہے۔
اور اس صورت میں ہماری بقاء کا راز پوشیدہ ہے۔ بصورت دیگر ہم نے یہاں قائداعظم محمد علی جناح سے عمران خان تک اور نور محمد صراف سے لیکر عبدالخالق تک اس بوسیدہ نظام سیاست کو دیکھ چکے ہے ۔ جس کا اس قوم کو کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔۔لہذا پھر بھی اس نظام کے امید میں بیٹھنا آزمائے ہوئے کو آزمانے کی مترادف ہوگا۔۔
بلکہ اس کے بجائے ہمیں ایک نظریاتی اور منظم نظام کی تشکیل کیلئے جدوجہد کرنا ہوگا۔۔۔
جان محمد انصاری

ہفتہ، 18 اپریل، 2020

نوجوانان ذمہ دار قبول کیجئے !!!


زندگی میں آج جہاں پر بھی آپ کھڑے ہے وہ دراصل آپ کے ماضی کے خیالات اور عمل کا نتیجہ ہیں۔
کیونکہ ہر جانے والے ایام آنے والے آیام کو جنم دیتا ہیں۔ آج جو کچھ حاضر ہے وہ کبھی مستقبل ہوا کرتاتھا اور جو کبھی ماضی کہلائے گا۔ وقت کا سفر جاری ہیں اسے ہم صرف اپنی محنت، جدوجہد اور کوششوں سے اپنے مفاد میں استعمال کرسکتے ہیں۔ وقت کی سے کوئی بھی زی شعور انسان نکار نہیں کرسکتا ہے۔ اس کی قدروقیمت اگر روزمرہ کی زندگی میں دیکھنا چاہیتے ہوں تو صبح کی اخبار کو دیکھ لوں جو اخبار صبح ایک عدد 20 روپے کا ہوتی ہےوہی اخبار شام کو کوئی 20 روپے فی کلو لینے کو تیار نہیں ہوتا ۔ ہم میں سے ہر کسی نے ہر کسی نے شاید بہت سی کوشش کئے ہونگے کہ اپنی زندگیوں میں تبدلی لائے لیکن صرف چند دن کے بعد کم بخت نفس خود بخود انسان کو واپس اسی جگہ پر لاکر کھڑا کردیتا ہے جہاں سے ہم لوگوں نے شروع کی تھی۔ لیکن دراصل یہ باتیں غلط ہے کیونکہ آپ نے سنجیدگی سے کوشش کی ہی نہیں ہونگے۔ کیونکہ خیالات اور احساسات کی ڈور آپ کے اپنے ہاتھوں میں ہی ہیں۔ زمہ داری قبول کیجئے! ناکام لوگوں کی سب سے بڑی عادت اور نشانی یہ ہے کہ وہ کوئی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے صرف شکوہ و شکایت کے میدان کے غازی ہوتے ہے۔ وہ اپنی ناکامیوں کا الزام اپنے والدین ، وسائل کی کمی، خراب ماحول اور برئے لوگوں اور قمست کے کندے پر ڈالتے ہے۔ اور خود کو معصوم،شریف النفس انسان اور غیر جانبدار دکھاتے ہے۔ اور وہ خود زمہ داری لینے کو تیار نہیں ہوتے ۔ اسی وجہ سے وہ زندگی میں کبھی خوش نہیں رہ سکتے ہے۔ انسان کو اس کی زندگی میں تین چیزوں پر مکمل کنڑول ہے۔ خیالات،تصورات اور عمل و کردار آپ تینوں کا مثبت استعمال کرکے اپنی زندگی کو کامیاب اور ان کے منفی استعمال سے آپنے زندگی کو بگاڈ اور ناکام بھی بناسکتے ہیں۔ یہ میں نہیں کہتا بلکہ سائنس اور انسانی شعور کہتاہے۔ لہذا ایک عالم دین اور بزرگ وار علامہ محمد آصف حسینی صاحب فرماتے تھے کہ ہمارے نوجوان بے عمل نہیں بلکہ بے خبر ہے ۔ لہذا اسلام قوانین اور شریعت بھی بے خبر لوگوں پر اپنا ہاتھ ٹھوڈا بہت نرم رکھتاہے لیکن کسی چیز کے بارے میں آگاہی کے بعد اگر اس پر عمل نہ کاجائے تو آپ کی اپنی بدقسمتی ہوگی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ تبدیلی چاہتے ہو ۔ چاہیے وہ تبدیلی آپ کی ذات میں ہو یا معاشرے میں دونوں صورتوں میں آپ کو زمہ داری قبول کرنے ہونگے۔ اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں۔
بقول شاعر :-
خود بخود ٹوٹ کے گرتی نہیں زنجیر کبھی
بدلی جاتی ہے بدلتی نہیں تقدیر کبھی
جان محمد انصاری

خیانت اور خیانت کاروں کا یہ سلسلہ آخر کب تک ؟

خیانت اور خیانت کاروں کا یہ سلسلہ آخر کب تک ؟ تاریخ کے اوراق اس بات کی گواہ ہے کہ تحریکوں اور غلام قوموں کے درمیان ہمیشہ سے غدار پیدا ہوئے ہ...